۹۳ آل عمران – ۱۷۰
بدیہیات قرآن
حکمتیں اور فائدے (۲/۸)
از: محمد عارف جمیل مبارک پوری
، ڈربن، ساؤتھ افریقہ
۲۔
فرمان باری
وآتوالیتامی
اموالہم ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب ولا تاکلوا اموالہم الی
اموالکم انہ کان حوبا کبیرا (نساء/۲)
”اوردے ڈالو یتیموں کو ان کا مال
او ربدل نہ لو برے مال کو اچھے مال سے،او رنہ کھاؤ ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ،یہ
ہے بڑا وبال“۔
اللہ تعالی نے سابقہ آیت میں
، یتیموں کا مال ناحق کھانے کی حرمت بیان فرمائی
ہے، اور اس کے تحت کسی بھی طرح سے کھانا داخل ہے، خواہ وہ تنِ تنہا ہو
یاکسی اور مال کے ساتھ ملاکر کھانا ،اس کے با وصف ،اس دوسری شکل
کو دوبارہ بیان کرنے میں کیا حکمت ہے؟
اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں:
۱۔
اس لیے کہ جب اللہ نے کسی کو حلال رزق دیا ہے، اور اس کو یتیموں
کے مال سے بے نیاز کردیا ہے، پھر بھی یتیموں کا مال
دیکھ کر اس کے منہ میں لعاب آجائے تو یہ حد درجہ قبیح اور
نہایت ہی مذموم ہے۔ یہ جواب زمخشری اوررازی
نے بیان کیا ہے۔ (۴۴)
۲۔
چوں کہ اس وقت کچھ لوگ ایساہی کرتے تھے،اس لیے ان کی مذمت
کی گئی ،اور ان کی تشہیر ہوئی تاکہ وہ اس سے بالکلیہ
احتراز کریں۔یہ جواب زمخشری نے دیا ہے ۔ (۴۵)
ابوحیان اس جواب کی تشریح
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اس کا حاصل یہ ہے کہ (الی
اموالکم) کی قید ، قید احترازی نہیں،بلکہ ان کے فعل
کی قباحت بیان کرنے کے لیے ہے۔اور تاکہ یہ موجودہ
صور تِ واقعہ سے ممانعت ہو ۔ اس کی نظیر یہ فرمان ِباری
ہے۔
ٓاضعافا
مضاعفة (سورہ آل عمران /۱۳۰ )
”کئی حصہ زائد“۔
حالاں کہ سود ہر صورت میں حرام ہے، لیکن
چوں کہ اس وقت کئی گنا بڑھا کر لینے کی عادت تھی ، اس لیے
اس کا ذکر کردیا گیا۔(۴۶)
۳۔
ابوحیان کہتے ہیں :
”یتیموں کا مال ناحق کسی
بھی طرح کھانا منع ہے،اس کے باوجود ( الی اموالکم) کی قید
لگانے میں حکمت ،اس امر پر تنبیہ ہے کہ ان کے ولی ( ذمہ دار)مال
دار ہیں۔گویا یوں کہاگیاکہ اے یتیموں
کے اولیاء! تم یتیموں کا مال نہ کھاؤ،جب کہ تم مال دار اور بے نیاز
ہو،اس لیے کہ اگر ولی دست نگر ہو تو دستور کے موافق کھاسکتاہے۔
اس لحاظ سے یہ قید احترازی ہے؛کیوں کہ اگر ولی فقیر
ہے تو کھاسکتاہے ۔ اور اس صورت میں ممانعت ،اس صور ت میں منحصر
ہوگی ،جب کہ ولی مال دار ہو،جیسا کہ فرمان ِباری ہے۔
ومن کان
غنیا فلیستعفف( نساء / ۶)
”اور جو شخص مستغنی ہو ، وہ تو اپنے
کو بالکل بچائے “۔(۴۷)
۴۔
یہ تاکید کے لیے ہے۔ ابن عاشور کہتے ہیں:
”(ولا تاکلوا
اموالہم الی اموالکم) یہ تیسر ی ممانعت،یتیموں
کا مال لینے اور اس کو اولیاء کے مال کے ساتھ ملانے کی ہے۔
اس طرح اس آیت میں ،ایک” امر“ اور دو” نہی“ملتے ہیں:
امر تو یہ ہے کہ میراث میں یتیموں کاحصہ نہ روکیں
؛بلکہ انہیں دے دیں۔پھر حرام مال کمانے کی ممانعت آئی
،پھر یتیموں کاسارا یا کچھ مال ہڑپ کرنے کی ممانعت آئی۔یہ
نہی اور امر اخیر، دونوں، امر اول کی تاکید ہیں۔(۴۸)
ابوسعود بھی تاکید ہی کے
قائل ہیں۔(۴۹)
۳۔
فرمانِ باری
ان الذین
یاکلون اموال الیتامی ظلما انما یاکلون فی بطونہم
نارا وسیصلون سعیرا (نساء /۱۰)
”جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں
کا ناحق ، وہ لوگ اپنے پیٹو ں میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور
عن قریب داخل ہوں گے آگ میں “۔
یہ بدیہی بات ہے کہ
کھانا پیٹ میں ہی کھایا جاتاہے، پھر اس کی صراحت
کرنے میں کیا حکمت ہے؟
اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں
:
۱۔
اس کی نظیر یہ آیت ہے:
یقولون
بافواہہم ما لیس فی قلوبہم ( آل عمران/۱۶۷)
”کہتے ہیں اپنے منہ سے ،جو نہیں
ان کے دل میں “۔
بات منہ سے ہی کہی جاتی
ہے،نیز
ولکن تعمی
القلوب التی فی الصدور(حج/۴۶)
”بلکہ دل جو سینوں میں ہیں،وہ
اندھے ہوجاتے ہیں“۔
دل سینہ میں ہی ہوتاہے۔نیز
ولاطائر یطیر
بجناحیہ (انعام/۳۸)
”اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ
اپنے دونوں بازووٴں سے اڑتے ہیں“۔
اڑنا بازووٴں سے ہی ہوتاہے،ان
تمام صورتوں میں مقصود ، تاکید اور مبالغہ ہے ۔ یہ جوا ب
رازی اور آلوسی نے دیا ہے۔ (۵۰)
۲۔
اس سے مرادپیٹ بھر کے کھاناہے۔کہا جاتاہے: اکل فلان
فی بطنہ ،وفی بعض بطنہ (اس نے پیٹ بھر کھایا ، یا
آدھا پیٹ کھایا ) ،اس طرح کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے
یہ تعبیر عام ہے۔ گویا یہ اس پر مبنی ہے کہ
ظرفیت کی حقیقت سے احاطہ اور شمول متبادر ہوتاہے کہ ظرف مظروف
سے پر ہوجائے اور کچھ باقی نہ رہے،لہٰذا ”اکل فی
البطن“
سے مرادپیٹ بھر کھانااور ”اکل فی
بعض البطن “
سے مرادآدھا پیٹ کھاناہے۔اس شعر میں یہی مرادہے:
کلوا فی
بعض بطنکم تعفوا فان زمانکم زمن خمیص
”
آدھا پیٹ کھاؤ، عفت قائم رہے گی، اس لیے تمہارازمانہ تنگی
کا ہے۔
” فی بطونہم “ میں یہ
بتانا ہے کہ یہ ناقص ہیں، کھانے کے حد درجہ حریص ہیں،اور
پیٹ کی وجہ سے، حرام مال حاصل کرنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔
کہاں یہ اور کہاں ایک شاعر کا یہ شعر
تراہ خمیص
البطن والزاد حاضر (۵۱)
”تم دیکھو گے کہ اس کا پیٹ دبا
ہوا ہے، حالاں کہ کھانا موجود ہے“۔
شنفری کا شعر ہے:
وان مدت
الأیدی الی الزاد لم أکن
بأعجلہم اذ أجشع القوم أعجل
” اگر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھیں
تو بھی میں سب سے آگے نہیں ہوتا،جب کہ لوگوں میں سب سے حریص
آدمی کا ہاتھ آگے بڑھ چکا ہوتاہے۔
اس میں یہ بھی تنبیہ
ہے کہ مال حاصل کرنے کا باعث،پیٹ ہے، جو مال کا سب سے گھٹیا مصرف ہے؛کیوں
کہ اس پر جو بھی صرف ہوگا،بہت جلد ضائع اور اکارت ہو جائے گا۔ اسی
لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
بحسب ابن
آدم اکلات یقمن صلبہ فان کان لا محالة فثلث لطعامہ ،و ثلث لشرابہ وثلث لنفسہ․(۵۲)
”آدمی کے لیے چند لقمے کافی
ہیں، جن سے اس کی کمر سیدھی رہ سکے،اور اگر ضروری ہی
ہے توپیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو ،ایک
تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی سانس لینے
کے لیے “۔
یہ جواب ابوحیان،نسفی،زمخشری،بیضاوی،
ابو سعود،آلوسی،اور ابن جوزی نے لکھا ہے۔(۵۳)
۴۔ فرمانِ باری
یوصیکم
اللہ فی أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین فان کن نساء فوق اثنتین
فلہن ثلثا ماترک وان کانت واحدة فلہا النصف ولأبویہ لکل وأحد منہما السدس
مما ترک ان کان لہ ولد فان لم یکن لہ ولد وورثہ أبواہ فلامہ الثلث فان کان
لہ اخوة فلامہ السدس من بعد وصیة یوصی بہا أو دین آباوٴکم
وأبناوٴکم لا تدرون أیہم أقرب لکم نفعا ، فریضة من اللہ ان اللہ
کان علیما حکیما(نساء/۱۱)
”اللہ تم کو حکم کرتا ہے تمہاری
اولاد کے حق میں کہ ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے، پھر اگر
صرف عورتیں ہی ہوں دو سے زیادہ تو ان کے لیے ہے دو تہائی
اس مال سے جو چھوڑ مرا اور اگر ایک ہی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے
، اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کے لیے دونوں میں سے
چھٹاحصہ ہے، اس مال سے جو کہ چھوڑمرا ،اگر میت کے اولاد ہے، اور اگر اس کے
اولاد نہیں اور وارث ہیں اس کے ماں باپ تو اس کی ماں کا ہے تہائی
پھر اگر میت کے کئی بھائی ہیں تو اس کی ماں کا ہے
چھٹا حصہ ،بعد وصیت کے جو کہہ مرا، یا بعد ادائے قرض کے، تمہارے باپ
اور بیٹے تم کو معلوم نہیں کون نفع پہنچائے تم کو زیادہ ،حصہ
مقرر کیا ہوا اللہ کا ہے، بیشک اللہ خبر دار ہے حکمت والا“۔
اس آیت میں چند مقامات پر بدیہیات
ہیں:
مقام
اول
لفظ”نساء“ جمع ہے، اور اقل جمع ،تین
ہے،لہٰذا ”نساء“ دو سے زیادہ ہوگیں۔اس کے باوصف ” فوق
اثنتین“ کی قید لگانے میں کیا حکمت ہے؟
اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں:
اول: جو لوگ اقل جمع دو مانتے ہیں ،یہ
آیت ان کے لیے حجت ہے، اور جو لوگ اقل جمع تین مانتے ہیں
، ان کا کہنا ہے کہ یہ تاکید کے لیے ہے،جیسا کہ آیت
کریمہ انما یاکلون فی بطونہم
نارا
(نساء /۱۰) ” وہ لوگ اپنے پیٹو
ں میں آگ ہی بھر رہے ہیں ۔
اسی طرح آیت کریمہ۔
لا
تتخذواالہین اثنین انما ہو الہ واحد (نحل/۵۱)
”دو معبود مت بناؤ“۔
لہٰذا ( فوق اثنتین)”
نساء“کی صفت ہے، اور” نساء“موصوف اپنی صفت( فوق اثنتین) کے ساتھ
خبر ہے، اس لیے کہ تنہا لفظ”نساء“ بذاتِ خود خبر کا فائدہ نہیں دیتا،اور
یہ صفت تاکید کے لیے ہے ،جس سے اس وہم کا ازالہ ہوتاہے کہ اس سے
پہلے جو جمع آیا ہے،اس سے مجازی معنی مراد ہو، کیوں کہ
بسا اوقات جمع بول کر ، تثنیہ مراد ہوتاہے۔ زمخشری کہتے ہیں
کہ ا س کو ”کان “ کی خبر دوم بھی مان سکتے ہیں۔ یہی
رائے نسفی کی بھی ہے۔
لیکن ابوحیان نے اس پر اعتراض
کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی بات نہیں ہوئی،اس لیے کہ
خبر سے ، بذات ِ خود اسناد کا فائدہ حاصل ہونا چاہیے،اور یہاں پر اگر(
فان کن نساء) پر وقف کیا جائے،تو یہ (ان کان
الزیدون رجالا) کی نظیر بن جائے گا، اور یہ کوئی
کلام نہیں ہوا ۔(۵۴)
آلوسی نے ابوحیان کے اس اعتراض
کو رد کرتے ہوئے کہاکہ اگر ( فوق اثنتین ) کو (نساء) کی صفت مان لیا
جائے،تو یہ محل فائدہ ہے،ابوحیان نے اسی صورت کو واجب قرار دیا
ہے، اور بعض حضرات نے اس کو خبر دوم قرار دیا ہے، ابوحیان نے اس کو
ناجائز قراردیا،ان کا گمان ہے کہ اس صورت میں اسناد بے فائدہ ہوجائے گی،حالاں
کہ یہ گمان(جیساکہ آپ جانتے ہیں ) بے محل ہے۔(۵۵)
زمخشری کہتے ہیں:
” اگر آپ سوال کریں کہ کیا (کن
) اور( کانت) میں جو ضمیریں ہیں،وہ مبہم ہوسکتی ہیں،
اور (نساء) اور ( واحدة) ان کی تفسیر ہوں ،جب کہ کان تامہ ہوگا؟اس کا
جواب یہ کہ میں اس کو مستبعد نہیں سمجھتا“۔
ابوحیان کہتے ہیں:
”مبہم سے مراد یہ ہے کہ یہ ضمیریں
کسی ماسبق مفسِر کی طرف نہ لوٹیں ؛ بلکہ ان کا مفسِر ان کے بعد
جو منصوب آرہاہے ،وہی ہو۔یہ صورت جس کو زمخشری نے غیر
مستبعد قرار دیا ہے، بعید؛بلکہ قطعا ممنوع ہے؛ اس لیے کہ کان ان
افعال میں سے نہیں،جن کا فاعل ایسی ضمیر ہوسکتی
ہے، جس کی تفسیر ما بعد ہو؛بلکہ یہ (نعم) ، (بئس) ، وہ افعال
(جوان پر محمول ہیں ) اورتنازع فعلین کے ساتھ خاص ہے ،جیسا کہ
نحو میں طے شدہ ہے۔
آلو سی نے اس کی تردیدکی
ہے۔(۵۶)
۲۔
یہاں پر (فوق) زائد ہے، جیسا کہ اس فرمان باری میں زائد
ہے
فاضربوا
فوق الاعناق ( انفال /۱۲)
”سو تم ان کی گردنوں پر مارو“۔
یہ جواب بغوی نے ذکر کیا
ہے۔ (۵۷)
ابن عاشور نے اس کی تردید کرتے
ہوئے کہا :
” اسماء عدد کے ساتھ آنے والے (فوق) اور
مکانِ فعل کے معنی میں آنے والے (فوق) میں زمین آسمان کا
فرق ہے“۔
ابو حیان نے بھی اس کی
تردید کرتے ہوئے کہا:
” اس خیال کی تردید کیلئے
کسی دلیل کی ضرورت نہیں، اسلئے کہ اس کا فساد واضح ہے۔(۵۸)
مقام
دوم
سوال یہ ہے کہ (لکل واحد ) ،( لابویہ)
سے بد ل ہے، اس ابدال کا فائدہ کیا ہے،جب کہ اس کے بغیر( لابویہ
السدس) کہا جاسکتا تھا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس ابدال میں
فائدہ ہے، اس لیے کہ اگر (لابویہ السدس ) کہہ دیا جاتا تواس سے
بہ ظاہر یہ سمجھ میں آتا کہ والدین اس سدس میں شریک
ہوں گے۔اور اگر یوں کہا جاتا: ( لابویہ السدسان)تو اس سے یہ
وہم ہوتا کہ یہ سدس ان دونوں کے درمیان برابریا فرق کے ساتھ تقسیم
ہوگا۔ہاں آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ پھر یوں کیوں نہ
کہہ دیا گیا:(ولکل واحد من ابویہ السدس)کہ پہلے ابوین کا
ذکر کیا گیا پھر اس کے بعد اس کا بدل لایا گیا؟تو اس کا
جواب یہ کہ ابدال اور اجمال کے بعد تفصیل میں تاکید اور
تشدید ہوتی ہے۔جیساکہ آپ مفسَر اور تفسیر کے اجتماع
میں دیکھتے ہیں۔ یہاں پر (السدس) مبتداء ہے، اس کی
خبر (لابویہ) ہے، اور ان دونوں کے درمیان میں بدل،بیان
وتوضیح کے لیے آیاہے۔ یہ جواب : زمخشری،نسفی،
رازی، ابو سعود،بیضاوی، ابوحیان اور آلوسی نے نقل کیا
ہے۔ (۵۹)
ابن منیر کا خیال ہے کہ
” اس کو اعرابی لحاظ سے بدل ماننا
محل نظر ہے؛ کیوں کہ اس صور ت میں یہ بدل الشیء من الشیٴ
کی قبیل سے ہوگا، جب کہ ان دونوں کا مصداق ایک ہے۔اور اصل
کلام یہ ہوگا: السدس لابویہ،لکل واحد منہما(چھٹاں حصہ اس کے والدین
کے لیے ہے، ان میں سے ہر ایک کے لیے) ، اور اگر مبدل منہ
پر اقتصارکیا جائے،تودونوں کو ”سدس“ میں شریک کرنا ہوگا، جیسا
فرمان باری میں ہے:
فان کن
نساء فوق اثنتین فلہن ثلثاماترک ․
”پھر اگر صرف عورتیں ہی ہوں دو
سے زیادہ تو ان کے لیے ہے دو تہائی اس مال سے جو چھوڑ مرا۔
اس لحاظ سے وہ اس میں شریک ہیں
،اور اگر اول کو کالعدم قراردے دیا جائے،تو بدل کا تقاضا ہے کہ ان میں
سے ہر ایک کے لیے علاحدہ علاحدہ سدس ہو،اور شرکت نہ ہو،اور یہ
اس طرح کے بدل کی حقیقت کے مناقض ہے،اس لیے اس سے لازم آتاہے کہ
بدل اورمبدل منہ کا حاصل ایک ہو۔اس سے تاکید کا فائدہ تو اسی
صورت میں حاصل ہوگا کہ دونوں اسم مجموعی طور پر ہوں،اور کوئی
زائد مفہوم نہ ہو۔اور جب ان دونوں میں تباین ثابت ہوگیا
تو مذکورہ بدلیت محال ہوگئی۔ اور اس اعراب کی صورت میں
یہ بدل تقسیم کی قبیل سے بھی نہیں،ورنہ بدل میں
معنی کی زیادتی لازم آئے گی۔لہذا اس کی
صحیح توجیہ (واللہ اعلم) یہی ہوسکتی ہے کہ یہاں
پر مبتدا محذوف مقدر مانا جائے،گویا اصل عبارت یوں ہے: ولابویہ
الثلث،اور چوں کہ اس میں ابوین کا حصہ اجمالی طور پر مذکور ہے،
اس لیے اس کی تفصیل (لکل واحد منہما السدس)سے کردی،اور اس
مبتدا کے حذف کا جواز یہ ہے کہ آگے اس کی تفصیل اس پرلامحالہ
دلالت کرتی ہے،ا س لیے کہ جب دونوں سدس کے مستحق ہیں تو لازمی
طور پر اجتماعی طور پر وہ ثلث کے مستحق ہوں گے“۔
لیکن ابو حیان نے اس کا رد
کرتے ہوئے لکھا ہے:
”یہ بدل البعض من الکل ہے،اسی
لیے ضمیر لائے ہیں، یہ خیال نہیں ہونا چاہے
کہ یہ”بدل الکل من الکل وہما لشیٴ واحد“ کی
قبیل سے ہے،اس لیے کہ یہ ترکیب(ابواک یصنعان
کذا)
جائز ہے، اور (ابواک کل واحد منہما یصنعان کذا )
ناجائز ہے ؛ بلکہ یہ کہنا ہوگا(یصنع
کذا)۔
لیکن ان کا اعتراض اس پر ہے کہ لابویہ
کو مبتداکی خبر مانا گیا ہے ، حالاں کہ اس طرح کی مثال میں
بدل کو مبتداء کی خبر مانا جاتاہے۔جیسا کہ اس مثال میں ہے۔حلبی
نے اس کا تعاقب کرتے ہوئے کہاکہ یہ مناقشہ محل نظر ہے، اس لیے کہ اگر
آپ سے پوچھا جائے کہ ابویہ کا محل اعراب کیا ہے؟تو آپ لامحالہ کہیں
گے کہ یہ خبر مقدم ہونے کے لحاظ سے ،محل رفع میں ہے،لیکن خبریت
کی نسبت ”لابویہ“ کے بجائے”کل واحد“کی طرف منتقل کردی گئی۔اور
یہ ترکیب اختیار کی گئی، اور یوں نہیں
کہا گیا:(ولکل واحد من ابویہ السدس)،اس لیے
کہ پہلی ترکیب میں،اجمال اور اس کے بعد تفصیل آرہی
ہے،جو ذہن میں زیادہ اثر انداز ہے، دوسری ترکیب میں
یہ چیز نہیں۔اور یوں بھی نہیں کہا گیا:(لابویہ السدسان) اس لیے کہ
پہلی ترکیب میں یہ تصریح ہے کہ ابوین مساوی
ہیں، جب کہ دوسری ترکیب میں اس کی تصریح نہیں،
اس میں کمی بیشی کا احتمال موجود ہے۔او ر اس کا
خلافِ ظاہر ہونا مضر نہیں ، اس لیے کہ اس سے عدول کے لیے،یہ
نکتہ کافی ہے۔ (۶۰)
مقام
دوم
سوال یہ ہے کہ ”وصیة “کی
صفت ”یوصی“ لانے میں کیا حکمت ہے، جب کہ وصیت ہوتی
ہی وہی ہے جو وصیت کی جائے ؟
اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں:
۱۔
وصیة کی صفت جملہ ”یوصی بہا“لائی گئی تا کہ یہ
وہم نہ ہوکہ اس وصیت سے مراد وہ وصیت ہے جو میراث میں شرعی
حصوں کی تعیین سے پہلے فرض تھی،جس کا ذکر اس فرمانِ باری
میں ہے :
کتب علیکم
اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیرا الوصیة للوالدین، والاقربین
بالمعروف․(بقرہ/۱۸۰)
”تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب کسی
کو موت نزدیک معلوم ہونے لگے (بہ شرطیکہ کچھ مال بھی ترکہ میں
چھوڑا ہو)تو والدین اوراقارب کے لیے معقول طورپر کچھ کچھ بتلاجائے“۔
یہ جواب ابن عاشور نے لکھا ہے۔(۶۱)
۲۔
یہ صفت لانے کا فائدہ ،وصیت کی ترغیب دینا ،اوراس کی
طرف دعوت دینا ہے۔ یہ جواب ابو سعوداور آلوسی نے لکھا ہے۔(۶۲)
۳۔
اس کا فائدہ تعمیم ہے، اس لیے کہ وصیت ہوتی ہی وہ
ہے جو وصیت کی جائے۔ یہ جواب آلوسی نے لکھا ہے۔(۶۳)
مقام
سوم
سوال یہ ہے کہ ”دین“کا ذکر یہاں
چار بار آیا ہے، اس تکرار کا کیا فائدہ ہے؟
ابن عاشور اس کا جواب دیتے ہوئے رقم
طراز ہیں:
” اس (وصیت )کے بعد دین کا ذکر
،اس چیز کے تتمہ کے طور پر آیا جس کو میراث پر مقدم کرنا ضروری
ہے، پھر سامعین بھی جانتے ہیں کہ دین ، وصیت پر
مقدم ہیے ،اس لیے کہ یہ میت کے مال میں، ایک
مقدم حق ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ دین دار صرف اسی مال کا
مالک ہے، جو اس پر واجب دین سے زائد ہو،لہٰذا ( او دین) کاعطف
،”احتراس“کے طور پر آیا ہے، اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اس قید(دین)
کوان آیات میں چار بارذکر فرمایا۔(۶۴)
۵۔ فرمانِ باری
واللاتی
یاتین الفاحشة من نسائکم فاستشہدوا علیہن أربعة منکم فان شہدوا
فأمسکوہن فی البیوت حتی یتوفاہن الموت أو یجعل اللہ
لہن سبیلا(نساء/۱۵)
”اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری
عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے، پھر اگر وہ
گواہی دے دیں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک
کہ اٹھالے ان کو موت یا مقررکردے اللہ ان کے لیے کوئی راہ“۔
سوال یہ ہے کہ( توفاہن الموت )کا کیا
معنی ہے، جب کہ توفی اور موت ایک معنی میں ہیں
، گویا یوں کہا گیا کہ یہاں تک کہ موت ان کو موت دے دے؟
اس کے دو جواب دیے گئے ہیں:
اول: اس سے مراد یہ ہے کہ یہاں
تک کہ موت کے فرشتے ان کو موت دے دیں جیسا کہ اس فرمانِ باری میں
ہے:
الذین
تتوفاہم الملائکة ظالمی انفسہم (نحل/۲۸)
”جن کی جان فرشتوں نے حالتِ کفر میں
قبض کی تھی“۔
نیز
ان الذین
توفاہم الملائکة (نساء /۹۷)
”بے شک جب ایسے لوگوں کی جان
فرشتے قبض کرتے ہیں ․․․․“۔
نیز
قل یتوفاکم ملک الموت (سجدہ/۱۱)
”آپ فرمادیجئے کہ تمہاری جان
موت کا فرشتہ قبض کرتاہے“۔
یہ جواب زمخشری نے لکھاہے۔(۶۵)
دوم: اس کا معنی یہ ہے : یہاں
تک کہ موت ان کو گرفت میں لے لے، اور ان کی روحیں وصول کرلے۔یہ
جواب بھی زمخشری نے لکھا ہے۔ (۶۶)
۶۔ فرمان ِ باری
واللاتی
یاتین الفاحشة من نسائکم فاستشہدوا علیہن اربعة منکم فان شہدوا
فامسکوہن فی البیوت حتی یتوفاہن الموت او یجعل اللہ
لہن سبیلا ،واللذان یاتیانہا منکم فآذوہما فان تابا و اصلحا
فاعرضو عنہما ان اللہ کاب توابا رحیما (نساء/۱۵۔۱۶)
”اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری
عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے، پھر اگر وہ گواہی
دے دیں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھالے
ان کو موت یا مقرر کردے اللہ ان کے لیے کوئی راہ۔ اور جو
دو مرد کریں تم میں وہ بدکاری تو ان کو ایذء دو پھر اگر
وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کا خیا ل
چھوڑدو ، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ، مہربان ہے“۔
پہلی آیت زنا کے بارے میں
ہے،اور دوسری آیت بھی زنا کے بارے میں،پھر اس کو مکرر بیان
کرنے میں کیا فائدہ ہے؟
اس کے جواب میں دواقوال ہیں:
پہلا
قول:
یہ دونوں آیتیں زانیوں
کے بارے میں ہیں،رہا یہ کہ اس تکرار کا کیا فائدہ ہے تو
اس کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں:
پہلی
وجہ:
پہلی آیت (واللاتی
یاتین الفاحشة من نسائکم) زانی عورتوں کے بارے میں
اوردوسری آیت (واللذان یاتیانہا
منکم)
زانی مردوں کے بارے میں ہے،پھر اللہ تعالی نے عورت کی سزا
،گھر میں قید کرنا ،اور مرد کی سزا ،ایذاء رسانی
مقرر فرمائی،اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت زنا میں اس وقت
مبتلا ہوتی ہے، جب گھر سے باہر جائے،لیکن اگر اس کو گھر میں بند
کردیا جائے تو اس معصیت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ مرد کو گھر میں
بند رکھنا ممکن نہیں،اس لیے کہ اسے اپنے معاشی امور کو دیکھنے
، اپنی ذمہ داریوں کوسنبھالنے اور اپنے اہل و عیال کی روزی
کمانے کے لیے باہر جانے کی ضرورت ہے،اس لیے زانی عورت کی
سزا،گھر میں بند رکھنامقررکی گئی،اور زانی مرد کی
سزا،ایذاء رسانی رکھی گئی۔اور یہ بھی
احتمال ہے کہ ایذاء رسانی کی سزا مرد وعورت دونوں کے لیے
مشترک طور پر رکھی گئی ،البتہ قید کی سزا خاص عورت کے لیے
ہے۔ توبہ کے بعد ایذاء رسانی کی سزا،دونوں سے اٹھالی
جاتی ہے، اور قید کی سزا عورت کے لیے باقی رہ جاتی
ہے۔اس آیت کی توجیہ میں یہی سب سے بہتر
صورت ہے۔یہ وجہ رازی نے نقل کی ہے۔ (۶۷)
ددوسر
وجہ :
سدی
کہتے ہیں کہ اس دوسری آیت سے مراد”بکر“(غیر شادی
شدہ)مردو عورت ہیں،اور پہلی آیت سے مراد شادی شدہ عورت ہیں۔
(یعنی معنوی لحاظ سے مرد بھی اس حکم میں داخل ہیں)
اس صورت میں دونوں آیتوں میں فرق واضح ہے۔ اس تفسیر
کی کئی وجوہات ہیں:(۱)اللہ
تعالی نے (واللاتی یاتین الفاحشة من
نسائکم)میں
نساء کو ازواج کی طرف منسوب و مضاف فرمایا۔(۲) اللہ نے ان کو (نساء) فرمایا،اور یہ
اسم ”ثیب“( شادی شدہ عورت ) کے زیادہ لائق ہے۔(۳)ایذاء رسانی ،گھر میں قید
سے ہلکی سزا ہے، اور ہلکی سزا،شادی شدہ کے لیے نہیں،
بلکہ غیر شادی شدہ کے لیے ہوگی۔ یہ وجہ رازی
نے نقل کیاہے۔ (۶۸)
امام طبری نے یہ قول حضرت عطاء
اورحسن کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسی کو راجح قراردیا اور فرمایا:
” (واللاتی
یاتین الفاحشة من نسائکم) کی تفسیر میں
ان لوگوں کا قول اقرب الی الصواب ہے ، جو کہتے ہیں کہ اس سے غیر
شادی شدہ مرادہیں کہ اگر ان سے زنا کا صدور ہوجائے، اور ایک مرد
دوسری عورت ہو،اس لیے کہ اگر اس آیت سے مقصود زانی مردوں
کا حکم بیان کرنا تھا،جیساکہ (واللاَتی
یاتین الفاحشة من نسائکم ) سے زانی عورتوں کا حکم بیان
کرنا مقصود ہے، تو اس طرح کہاجاتا: ”والذین
یاتونہا منکم فآذوہم“یعنی جو مرد تم میں سے یہ
برائی کریں، ان کو اذیت دو۔
عربوں کا انداز یہی ہے کہ اگر
وہ کسی فعل پر وعید یا وعدہ بیان کرنا چاہتے ہیں
تواہلِ فعل کا نام، جمع یا واحد کے ساتھ لیتے ہیں،اس لیے
کہ واحد ، جنس پر دلالت کرتاہے،عرب اس کو تثنیہ کے ساتھ ادا نہیں
کرتے،مثلا وہ کہتے ہیں: الذین
یفعلون کذا فلہم کذا (جو یہ کریں ، ان کے لیے
یہ ہے) یا الذی یفعل کذا فلہ کذا (جو یہ کرے ، اس
کے لیے یہ ہے)
وہ اس کو یوں نہیں کہیں
گے: والذان یفعلان کذافلہما کذا۔ ہاں اگر کوئی ایسا فعل
ہوجس کاصدور دو مختلف اشخاص سے ہی ہوسکتاہے، مثلا زنا کہ اس کے لیے
زانی مر د اور زانی عورت کا ہونا لازم ہے ۔ تو اس صورت میں
تثنیہ کا ذکر کرتے ہیں اوراس سے مراد،فاعل اورمفعول بہ ہوتے ہیں۔لیکن
ایسا نہیں ہوتاکہ فعل تو اس نوعیت کا ہے کہ ان میں سے کوئی
ایک اکیلا اس کو انجام دے سکتاہے،یا فعل ایسا ہے کہ وہ
دونوں ا س میں مشترک نہیں،پھربھی اس کے لیے تثنیہ
کا صیغہ استعمال کریں۔ یہ انداز عرب کے کلام میں نہیں
ملتا۔
جب
یہ ضابطہ ہے تو یہ واضح ہوگیا کہ جو لوگ (واللذان یاتیانہا منکم) سے
مراد ،دو مرد لیتے ہیں، غلط ہے، اور جولوگ اس سے مراد ،مرد وعورت لیتے
ہیں ، وہی صحیح ہے۔ لہٰذا یہ معلوم ہوگیا
کہ(واللاتی یاتین الفاحشة من
نسائکم)
میں جن عوتورں کے احکام بیان کیے گئے ہیں وہ الگ ہیں
اور (واللذان یاتیانہا منکم)میں
جن کے احکام بیان کیے جارہے ہیں ، یہ الگ ہیں، اس لیے
کہ ( واللاتی یاتین الفاحشة من
نسائکم)
جمع ہیں ،اوریہ(واللذان یاتیانہا
منکم)
دو ہیں۔
لہٰذا یہ معلوم ہے کہ گھر میں
قید ،شادی شدہ عورتوں کی سزاتھی( جب تک کہ اللہ تعالی
نے ان کے لیے موت سے پہلے ،کوئی راہ مقررنہ کردی تھی) ،
اس لیے کہ یہ ایذاء رسانی (یعنی زبانی
زجر و توبیخ کی جائے ،یا عار دلایا جائے) سے زیادہ
سخت ہے ،جیسا کہ ان(شادی شدہ عورتوں) کے لیے جو سنگ ساری
کی سزامقرر کی گئی وہ غیر شادی شدہ عورت کے لیے
مقرر کی جانے والی راہ (سوکوڑے اور شہر بدرکی سزا) کے مقابلہ میں
سخت ہے۔(۶۹)
قرطبی کہتے ہیں کہ ابن عطیہ
نے کہا کہ معنوی لحاظ سے یہ قول ،مکمل ہے،لیکن آیت کے
الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے،طبری نے اس کو راحج قرار دیا
ہے، جب کہ نحاس نے کہاکہ مونث کو مذکر پر غالب کرنا بعید ہے۔ اس لیے
کہ اگرحقیقی معنی درست ہو تو مجازی معنی کی
طرف نہیں جاتے۔ ایک قول ہے کہ قید کی سزا زانیہ
عورت کے لیے تھی، زانی مرد کے لیے نہیں تھی ۔اس
لیے قید کی سزا میں صرف عورت کا ذکر کیا گیا،اور
ایذاء کی سزا میں دونوں کا بیان ہوا۔ قتادہ کہتے ہیں
:عورت کو گھر میں قید کردیا جاتاتھا، اور ایذاء کی
سزا دونوں کو دی جاتی تھی۔مرد کو قید نہ کرنے کی
وجہ یہ ہے کہ اس کو دوڑ دھوپ اور کمانے کی ضرورت ہے۔ (۷۰)
یہی رائے ابوسعود اور بغوی
اور آلوسی کی ہے ،البتہ آلو سی کہتے ہیں کہ اس سے آیت
میں تکرارتو دور ہوجاتا ہے؛ لیکن شادی شدہ زانی کا حکم
،ظاہر نہیں۔(۷۱)
تیسری
وجہ :
حسن کہتے ہیں کہ یہ آیت
،سابقہ آیت سے پہلے نازل ہوئی،تقدیر عبارت یوں ہے: والذان یاتیان الفاحشة من النساء وا
لرجال فآذوہما فان تابا واصلحا فاعرضوا عنہما(مردوں اور عورتوں
میں سے جو دوشخص یہ برائی کربیٹھیں،ان کو اذیت
دو،اور اگر توبہ و اصلاح کرلیں،تو ان سے اعراض کرو)اس کے بعد یہ آیت
نازل ہوئی: ”فامسکوہن فی البیوت“یعنی اگر وہ ا س سے
توبہ نہ کریں ،بلکہ اس قبیح فعل پر اصرار کریں،توان عورتوں کو
گھر میں قید کردو یہاں تک ان کے حالات تم کو واضح طور پر معلوم
ہوجائیں۔ امام رازی نے یہ قول نقل کرنے کے بعدفرمایا
کہ یہ قول میرے نزدیک حددرجہ بعید ہے۔ اس لیے
کہ ا س سے آیتوں کی ترتیب میں خلل آتاہے ۔ (۷۲)
چوتھی
وجہ :
مرا دیہ ہے کہ اللہ تعالی نے پہلی
آیت میں یہ بیان کیا کہ زنا کے گواہ چار عدد ہونے
چاہئیں،اس کے بعد یہ بیان کیا کہ اگر گواہ صرف دو ہوں،تو
ان کو اذیت دو ، ان کو امام تک معاملہ پہنچانے اور حد قائم کرنے کا خوف
دلاؤ،اور اگر امام کے پاس معاملہ لے جانے سے پہلے وہ توبہ کرلیں توانہیں
چھوڑ دو۔یہ وجہ رازی نے نقل کی ہے۔ (۷۳)
پانچویں
وجہ :
فرمان ِ باری ( واللاتی یاتین الفاحشة )
تمام بدکردار عورتوں کو شامل ہے ، خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر
شادی شدہ۔اور (والذان یاتیانہا) دو
طرح کے مردوں کا متقاضی ہے۔اس لیے کہ الذی کا تثنیہ
ہے،جو مذکر اسم موصول ہے۔ اور اسکے مقابلہ میں (واللاتی یاتین الفاحشة) میں
مونث اسم موصول لایا گیا ہے۔ اور بلاشبہ ( الذان) سے مراددوقسم
کے مرد ہیں:ایک وہ قسم جو شادی شدہ ہیں ، اور دوسری
قسم وہ جو شادی شدہ نہیں۔حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه نے
(بہ روایت مجاہد) اس کی یہی تفسیر کی ہے۔اس
آیت کی تفسیر میں یہ ایک قابلِ معقول وجہ ہے،اور
اس کا معنی صحیح ہوجاتاہے، نہ اس میں کوئی تداخل رہتاہے
،نہ کوئی تکرار۔یہ وجہ ابن عاشور نے لکھی ہے، نحاس نے اسی
کو اختیار کیا ہے، قرطبی نے اس کو مجاہد وغیرہ سے منسوب کیا
اور مستحسن قراردیا ۔ (۷۴)
دوسرا
قول:
اس آیت کی تفسیر میں
دوسرا قول ابومسلم اصفہانی کا اختیار کردہ ہے کہ (واللاتی یاتین الفاحشة) سے
مراد، ہم جنس پرست عورتیں ہیں،اور ان کی سزا موت تک قید میں
رکھنا ہے۔اور (واللذان یاتیانہا منکم) سے
مرادلوطی ہیں،اور ان کی سزا قولی اور عملی ہے۔سورہ
نور میں مذکورہ آیت سے مراد: مرد و زن کا زنا ہے۔اور اس کی
سزاغیر شادی شدہ ہوں تو کوڑے ہیں،اور شادی شدہ ہوں تو سنگ
سار کرنا ہے۔ابو مسلم نے اس کی تائید میں کئی
وجوہات بیان کی ہیں :
اول:
(واللاتی
یاتین الفاحشة) عورتوں کے ساتھ خاص ہے۔ اور (واللذان یاتیانہا منکم)مردوں
کے ساتھ خاص ہے؛ اس لیے کہ (واللذان ) مذکر کے تثنیہ کے لیے
آتاہے۔ ہاں اس پر یہ اشکال ہوتاہے کہ یہ کیوں جائز نہیں
کہ (اللذان ) سے مراد ،مذکر و مونث ہوں ،
البتہ مذکر کا لفظ غالب کردیا گیاہے؟لیکن اس کا جواب یہ
ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو اس سے پہلے عورتوں کا ذکر علاحدہ نہ آتا۔اور
جب عورتوں کا مستقل ذکر کرنے کے بعد(واللذان یاتیانہا
منکم)فرمایا
تو یہ احتمال ختم ہوگیا۔
دوم:
اس توجیہ کی صورت میں کسی
بھی آیت میں نسخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں
رہتی،ہر آیت کا حکم باقی اورطے رہتاہے۔اور آپ نے جو توجیہ
کی ہے ، اس میں نسخ ماننا پڑتاہے،لہذا یہ ہماری توجیہ
اولی ہے۔
سوم:
آپ کی توجیہ تسلیم کرنے
پر (واللاتی یاتین الفاحشة) زنا
کے بارے میں ہے ،اسی طرح (واللذان یاتیانہا
منکم)بھی
زنا کے بارے میں ہے۔جس کی وجہ سے ایک ہی چیز
کا ایک ہی جگہ میں دوبار تکرار لازم آتاہے،اور یہ قبیح
ہے۔ہماری توجیہ کی صورت میں یہ لازم نہیں،
لہٰذا ہماری توجیہ اولی ہے۔
چہارم:
جولوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت
زنا کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے (او یجعل
اللہ لہن سبیلا)کی تفیسر،سنگ ساری، کوڑے مارنا، اور
شہر بدری سے کی ہے۔اور یہ صحیح نہیں ، اس لیے
کہ یہ چیزیں ان کے حق میں نہیں ؛بلکہ ان کے خلاف ہیں،فرمانِ
باری ہے:
لہا
ماکسبت وعلیہا مااکتسبت (بقرہ/۲۸۶)
”اس کو ثواب بھی اسی کا ہوتاہے
،جو ارادہ سے کرتا ہے، اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا، جو ارادہ سے
کرے“۔
ہمارے نزدیک اس کی تفسیریہ
ہے کہ اللہ تعالی ان کے لیے،نکاح کے ذریعہ شہوت پوری کرنے
کا راستہ ہموار کردے۔
اس کے بعد ابو مسلم نے کہاکہ ہماری
توجیہ کے درست ہونے کی دلیل یہ فرمانِ نبوی ہے
اذا اتی
الرجل الرجل فہما زانیان، واذااتت المراة المراة فہما زانیتان(۷۵)
” مرد مرد سے خواہش پوری کرے تو وہ
دونوں زانی ہیں، اور عورت ،عورت سے خواہش پوری کرے تو وہ دونوں
زانی ہیں“۔
ابومسلم کے قول کے رد میں کئی
طرح سے استدلال کیا گیا ہے:
اول: متقدمیں مفسرین میں
سے کوئی بھی اس قول کا قائل نہیں ہے، لہذا یہ باطل ہے۔
دوم: حدیث میں ہے کہ
قدجعل
اللہ لہن سبیلا:الثیب ترجم والبکر تجلد“۔(۷۶)
” اللہ تعالی نے ان کے لیے راہ
نکال دی :شادی شدہ عورت کو سنگ سار کیا جائے اور غیرشادی
شدہ کو کوڑے لگائے جائیں “۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ آیت
زانیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
سوم : اہلِ لوط کے حکم کے بارے میں
صحابہ میں اختلاف تھا،لیکن کسی نے اس آیت کو اپنا مستدل
نہیں بنایا ،اس وقت جب کہ اس مسئلہ میں کسی دلیلِ
نص کی سخت ضرورت تھی،اس کے باوصف، ان کا اس کو مستدل نہ بنانا،اس بات
کی قوی دلیل ہے کہ یہ آیت لواطت کے بارے میں
نہیں۔
لیکن ان ردود کابھی جواب دیا
گیاہے:
اول کا جواب یہ ہے کہ یہ اجماع
ناقابلِ تسلیم ہے ،اس کے قائل مجاہد ہیں ،جو اکابرِ مفسرین میں
آتے ہیں۔اور اصول فقہ میں یہ بات آچکی ہے کہ آیت
کی کوئی نئی تاویل مستنبط کرنا،جس کا ذکر متقدمین
کے یہاں نہیں ملتا،جائز ہے۔
دوم کا جواب یہ ہے کہ اس سے ،قرآن کریم
کا، خبر واحد کے ذریعہ نسخ لازم آتا ہے،اور یہ ناجائز ہے۔
سوم کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کا مطلوب
یہ تھا کہ کیا لوطی پر ”حد“ قائم کی جائے گی یا
نہیں؟اور ظاہر ہے کہ اس آیت میں،مثبت یا منفی اس کی
کوئی دلیل نہیں،اسی وجہ سے انہوں نے اس کی طرف رجوع
نہیں کیا۔(۷۷)
ابو حیان نے دوسرے قول کو ظاہر قراردیتے
ہوئے کہا :
”ظاہرِ الفاظ ،مجاہد وغیرہ کے قول کے
متقاضی ہیں کہ (اللاتی) عورتوں کے ساتھ خاص ہے،اور اس میں
شادی شدہ اورغیر شادی شدہ سب داخل ہیں۔ اور
(واللذان) مردوں کے ساتھ خاص ہے، اور اس میں شادی شدہ او رغیر
شادی شدہ سب داخل ہیں۔عورتوں کی سزا قید کرناہے
،اور مردوں کی سزا ایذاء رسانی ہے۔ یہ دونوں آیتیں،
سورہ نور کی آیت کے ساتھ مل کرزانیوں کی تمام اقسام کو بیان
کرتی ہیں۔اس ظاہر کی تائید (من نسائکم) اور ( منکم)
کے الفاظ سے ہوتی ہے۔ یہ اشکا ل نہیں ہونا چاہیے کہ
”سحاق“ اور”لواط“ ( ہم جنس پرستی)عربوں یا دور جاہلیت میں
معروف نہ تھے۔ ا س لیے کہ یہ چیز قلت کے ساتھ ان میں
موجود تھی۔طرفہ بن عبد کہتاہے۔
ملک النہار وانت اللیل مومسة ماء
الرجال علی فخذیک کالقرس
ایک رجزیہ اشعار میں ہے:
اعجبا
لساحقات الورس الجاعلات المکس فوق المکس (۷۸)
۶۔ فرمانِ باری
انما
التوبة علی اللہ للذین یعملون السوء بجہالة ثم یتوبون من
قریب،فاولئک یتوب اللہ علیہم وکان اللہ علیما حکیما
(نساء /۱۷)
”توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرورتو ان کی
ہے،جو براکام جہالت سے کرتے ہیں ،پھر توبہ کرتے ہیں جلدی سے، تو
اللہ ان کو معاف کردیتا ہے،ا ور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے‘
سوال یہ ہے کہ ( انما التوبة علی
اللّٰہ) کے بعد اب ( فاولئک یتوب اللّٰہ علیہم) کہنے کا کیا
فائدہ ہے؟
اس کے دو جواب دیے گئے ہیں:
اول: (انما
التوبة علی اللہ ) میں یہ بتاناہے کہ اللہ
تعالی پر ( استحقاق کے طور پر نہیں ؛ بلکہ فضل و کرم،اوراحسان کے طور)
توبہ قبول کرنا واجب ہے،اور ( فاولئک یتوب اللہ علیہم ) میں یہ
بتانامقصود ہے کہ اللہ تعالی ایسا کرے گا۔ یہ جواب : رازی
، ابوسعود،اور آلوسی نے ذکر کیاہے۔ (۷۹)
زمخشری کہتے ہیں:
”( انما
التوبة علی اللہ )میں یہ اطلاع ہے کہ توبہ
قبول کرنااللہ پر ایسے ہی واجب ہے ،جیسے کہ بندوں پر بعض نیک
کام واجب ہوتے ہیں،اور ( فاولئک یتوب
اللہ علیہم )میں یہ وعدہ ہے کہ اللہ تعالی ،اپنی
ذمہ داری کو پورا کرے گا،اور یہ خبر ہے کہ مغفرت لامحالہ ہوگی
،جیساکہ بندے سے واجب کے ایفاء کا وعدہ ہے۔(۸۰)
ابوحیان نے اس کا تعاقب کرتے ہوئے
لکھا ہے :
”زمخشری کا یہ قول ،اعتزالی
نظریہ پر قائم ہے، ہماراعقیدہ یہ ہے کہ عقل کے اعتبار سے اللہ
تعالی پر کوئی چیز واجب نہیں،سمع ونقل کے لحاظ سے جن چیزیں
کے تعلق سے بہ ظاہر معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی پرواجب ہیں،جیسے
کفار کا ہمیشہ جہنم میں رہنا،اور شرائط کے ساتھ ، کافر کی توبہ
قبول کرنا،تو اس کا ہونا یقینی ہے،رہا توبہ قبول کرنا ،تو عقلاً
اللہ تعالی پر واجب نہیں،جہاں تک سمع و نقل کا تعلق ہے، تو قرآنی
آیا ت اور سنتِ نبویہ کے ظواہر کثرت سے ،توبہ قبول کرنے پر دلالت کرتے
ہیں۔اور ان سے اس کا قطعی ہونا معلوم ہوتاہے ۔ (۸۱)
دوم : ( انما
التوبة علی اللہ )سے مراد یہ ہے کہ توبہ کی
ہدایت ،رہنمائی اور اس میں تعاون کرنا، اللہ تعالی پر اس
شخص کے حق میں واجب ہے،جوجہالت کی بناء پر کوئی گناہ کرے،اور
جلد ہی توبہ کرلے،اس پر اصرار نہ کرے، استغفارکرلے۔ ا س کے بعد فرمایا:(فاولئک یتوب اللہ علیہم)یعنی
جو بندہ اس طرح کا ہے، اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ
قبول کرے گا۔ لہذا اول الذکر سے مراد ، توبہ کی توفیق اور موخر
الذکر سے مراد، توبہ کی قبولیت ہے۔یہ جواب رازی
اورابو حیان نے لکھاہے۔(۸۲)
۸۔
فرمانِ باری
ولیست
التوبة للذین یعملون السیئات حتی اذا حضر أحدہم الموت قال
انی تبت الآن ولاالذین یموتون وہم کفار، اولئک اعتدنا لہم عذابا
الیما(نساء/۱۷)
” اور ایسوں کی توبہ نہیں،جو
کیے جاتے ہیں برے کام ،یہاں تک کہ جب سامنے آجائے ان میں
سے کسی کے موت تو کہنے لگا :میں توبہ کرتاہوں اب ،اور نہ ایسوں
کی توبہ ،جو کہ مرتے ہیں حالتِ کفر میں،ان کے لیے تو ہم
نے تیار کیا ہے، عذاب دردناک“۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہ
بیان فرمایاکہ موت کی علامات و مقدمات سامنے آنے کے وقت توبہ
کرنے والے کی توبہ قبول نہیں،تو یہ بدیہی بات ہے کہ
موت کے بعد توبہ قبول نہیں ، اب اس کے بعد (ولا الذین
یموتون)
کہنے کا کیا فائدہ ہے؟
اس کے دو جواب دیے گئے ہیں :
اول: یعنی جن کی موت قریب
ہوگئی،اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قربِ موت کے وقت معاصی سے
توبہ قبول نہیں،اسی طرح قربِ موت کے وقت ،ایمان بھی قبول
نہیں ۔ یہ جواب رازی نے بیان کیا ہے۔(۸۳)
دوم: مراد یہ ہے کہ اگر کفار حالتِ
کفر میں مرجائیں،اور قیامت کے دن توبہ کریں،تو ان کی
توبہ قبول نہیں۔ یہ جواب بھی رازی نے بیان کیا
ہے۔(۸۴)
***
حواشی
(۴۴) زمخشری
تفسیرِ آیت؛ رازی ۵/۴۴۔ (۴۵) زمخشری تفسیرِ
آیت۔
(۴۶) ابوحیان
تفسیرِ آیت ۔ (۴۷) ابوحیان
تفسیرِ آیت ۔
(۴۸) ابن
عاشور۳/۳۱۸۔ (۴۹) ابوسعود۲/۱۴۴۔
(۵۰) رازی۹/۵۰۶ ؛ آلوسی ۴/۲۱۴۔
(۵۱) درید
بن صمہ نے اپنے بھائی کے مرثیہ میں کہاتھا،اس کا دوسرا ٹکڑا یہ
ہے۔
عتید،ویغدو فی
القمیص المقدد
”موجودہے، لیکن شکستہ کرتے
میں زندگی گزارتاہے۔
(۵۲) ترمذی
کتاب الزہدباب کراہیة کثرة الاکل ۷/۴۶(۲۴۲۰)
،یہ
حدیث حسن صحیح ہے؛ مسندِ احمد (۱۶۸۵۹)؛ صحیح ابن حبان۵/۳۳(۵۱۳۰)
(۵۳) ابوحیان
تفسیرِآیت،نسفی تفسیرِآیت،زمخشری تفسیرِآیت،بیضاوی۲/۱۵۰، ابو سعود۲/۵۰،آلوسی۴/۲۲۴، ابن جوزی
تفسیرِآیت۔
(۵۴) زمخشری
تفسیرِ آیت؛ابوحیان تفسیرِ آیت؛؛نسفی تفسیرِ
آیت۔
(۵۵) آلوسی
۳/۴۵۲۔
(۵۶) زمخشری
تفسیرِ آیت ؛ابوحیان تفسیرِ آیت ؛آلوسی ۳/۴۵۲۔
(۵۷) بغوی
تفسیرِ آیت۔
(۵۸) ابن
عاشور تفسیرِ آیت ؛ ابوحیان تفسیرِ آیت۔
(۵۹) زمخشری
تفسیرِ آیت،نسفی تفسیرِ آیت، رازی تفسیرِ
آیت، ابو سعود تفسیرِ آیت ، بیضاوی ۲/۱۵۱، ابوحیان
تفسیرِ آیت؛ آلوسی۴/۲۲۷
۔
(۶۰) آلوسی
۴/۲۲۷۔ (۶۱) ابن
عاشور تفسیرِآیت۔
(۶۲) ابو
سعود۲/۱۵۰؛ آلوسی۴/۲۳۴۔ (۶۳) آلوسی۴/۲۳۴۔
(۶۴) ابن
عاشور۴/۲۳۴۔ (۶۵) زمخشری
تفسیرآیت۔
(۶۶) زمخشری
تفسیرآیت۔ (۶۷) رازی
تفسیرِ آیت۔
(۶۸) رازی
تفیسرِ آیت۔ (۶۹) طبری
۴/۲۰۰؛رازی تفسیرِ
آیت ۔
(۷۰) ابن عطیہ
تفسیرِ آیت ؛ قرطبی ۱/۱۲۸۰۔
(۷۱) ابوسعود
تفسیرِ آیت؛ بغوی تفسیرِ آیت؛ آلوسی ۴/۲۳۵
(۷۲) رازی
تفسیرِ آیت۔ (۷۳) رازی
تفسیرِ آیت۔
(۷۴) ابن
عاشور تفسیرِ آیت؛ قرطبی ۵/۸۶؛ابن کثیر تفسیرِ آیت۔
(۷۵) شوکانی(
نیل الاوطار۷/۲۸۷) کہتے ہیں کہ
بیہقی نے بہ روایت حضرت ابو موسی یہ حدیث بیان
کی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایاکہ مرد مرد سے خواہش پوری
کرے تو وہ دونوں زانی ہیں، اور عورت ،عورت سے خواہش پوری کرے تو
وہ دونوں زانی ہیں“۔اس حدیث کی سند میں محمد
بن عبد الرحمن ہے ،جس کو ابو حاتم نے جھوٹا کہا ہے، اور بیہقی نے
کہاکہ میں اس کو نہیں جانتا، اس سند کے ساتھ یہ حدیث منکر
ہے“، انتہی۔ابو الفتح ازدی نے یہ حدیث ”الضعفاء“
اور طبرانی نے ”الکبیر “ میں ایک اور سند سے حضرت ابو موسی
سے روایت کیا ہے، اس کی سند میں بشر بن مفضل بجلی
ہے،جو مجہول ہے۔ابو داود طیالسی نے اپنی ”مسند“ میں
یہ حدیث ،ان سے روایت کی ہے۔
(۷۶) ان
الفاظ کے ساتھ یہ حدیث نہیں ملی، البتہ مسلم (کتاب الحدود
باب حد الزانی ۳/۱۳۱۶(۱۶۹۰)
نے
ان الفاظ کے ساتھ بہ روایت عبادہ بن صامت نقل کیا ہے: (خذوا عنی،
خذوا عنی، قد جعل اللہ لہن سبیلا: البکر بالبکر جلد مئة ونفی
سنة، والثیب بالثیب جلد مئة والرجم)
(۷۷) رازی
تفسیرِآیت۔
(۷۸) ابوحیان
تفسیرِ آیت۔
(۷۹) رازی
، ابوسعود،اور آلوسی ۔
(۸۰) زمخشری
تفسیرِآیت۔
(۸۱) ابو حیان
تفسیرآیت ۔
(۸۲) رازی
تفسیرِآیت ؛ ابو حیان تفسیرِآیت۔
(۸۳) رازی
تفسیرِ آیت۔
(۸۴) راز ی
تفسیرِآیت۔
***
_______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ،
شماره 12 ، جلد: 93 ذى الحجہ 1430 هـ مطابق دسمبر 2009ء